Urdu Mela Report on Two circle.net
The Urdu Cultural Mela which took place on May 20th, 2017 at Seneca Valley High School received a very good review.
Please check it out at this link: http://twocircles.net/2017jul01/412281.html
The Urdu Cultural Mela which took place on May 20th, 2017 at Seneca Valley High School received a very good review.
Please check it out at this link: http://twocircles.net/2017jul01/412281.html
سرسید کی یاد میں
رضا علی
بالٹی مور ۲۰۱۷/۱۰/۰۸
برصغیر کی تاریخ میں، جو عہد ساز ہستیاں گزری ہیں، ان میں بہت نمایاں اور اہم نام سید احمد خان کا ہے۔ ۔جنھوں نے اپنی بصیرت اورتخیل سے بظاہر ایک ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔ میرا اشارہ عہد ساز شخصیت، سرسید احمد خان کی طرف ہے۔ جن کے وجدان اور دور نگاہی نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیٔ روح پھونک دی،اور ایک ایسا چراغ روشن کیا،جس کی لو نے، نہ صرف اس وقت، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ، مشعل راہ کا کام کیا۔
سرسید پران کے زمانے میں اور بعد کو، بھی تنقید ہویٔ۔ لیکن وہ اپنی مضبوط قوت ارادی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔
؎ بقول میر تقی میر، مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں،تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔
اسی طرح؎ اقبال نے بھی کہا تھا، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
سرسید کی تحریک کا محورتھا،تعلیم۔ خصوصی طور پر مغربی تعلیم، جس کے حصول کے لیے انگریزی زبان کا جاننا بے حد ضروری تھا۔یہ اس لیے کہ، انہوں نے علی گڑھ اسکول اور یونیورسٹی کی جب بنیاد رکھی تو،اس میں انگریزی تعلیم لازمی قرار پایٔ۔۔جو کہ اس وقت کی ضرورت تھی،اور یہ بعد کے حالات و واقعات نے ثابت بھی کیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔
ان کے اس فیصلے پر لوگوں نے بہت تنقید کی اور شروع میں اپنے بچوں کو علی گڑھ اسکول میں نہیں بھیجا۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ لوگوں نےاس طرزتعلیم کو قبول کرلیا۔
سرسید نے ۱۸۷۵ میں اسکول کی بنیاد مدرسہتاالعلم کے نام سے رکھی۔بعدازاں ۱۸۷۷میں اینگلو اورینٹل کالج کا سنگ بنیاد رکھا،اور پتھر پہ سرسید نے تین بار ضرب لگا کر کہا، میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھردرست اور موزوں مقام پہ نصب ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں سرسید کے اس اعلان کی وجہ یہ تھی، کہ وہ دنیا کو یہ باورکرانا چاہ رہے تھے،کہ تعلیم کتنی ضروری ہے، اور اس کی اہمیت کیا ہے۔
سرسید نےجوبیج بویا اورجس پودے کی آبیاری کی تھی،۱۹۲۰ میں وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔اینگلو اورینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ جس کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رکھا گیا۔
سرسید کا تخیل مذہب و ملت کےامتیاز کےبغیرنوجوان نسل کی بہترتعلیم و تربیت تھا۔علی گڑھ کے فارغ التحصیل طلبأ نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ۔جن میں بہت نامی گرامی لوگ شامل ہیں،جیسے،لیاقت علی خان، مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حسرت موہانی،الطاف حسین حالی، بابأے اردوعبدالحق، پطرس بخاری،زیڈ اے بخاری، شبلی نعمانی، عصمت چغتأی ،جاوید اختر،اسرار الحق مجاز،شکیل بدایونی،فانی بدایونی،حضرت جوش ملیح آبادی،سجاد حیدر یلدرم،سعادت حسن منٹو،جناب اختر انصاری دہلوی وغیرہ ایک لمبی تعداد ہے، ان مشاہیر کی۔
بقول ؎ شاد عظیم آابادی، ڈھونڈوگے ہمیں برسوں برسوں،
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم، تعبیر ہے جس کی حسرت و غم،
اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم۔
رضی اختر شوق؎
ہم روحِ سفرہیں ہمیں ناموں سے مت پہچان ،
کل اور کسی نام سے آجاییں گے ہم لوگ