Articles
Our blog entries and other musings…
.عیدیں تو بچپن اور کم عمری کی ہی ہوا کرتی تھیں
ہمیں یاد ہے بچپن میں ہم ہمیشہ اس معجزے کے منتظر رہتے تھے کہ چاند 27 یا 28 کو ہی نظر آ جائے بلکہ اپنے تیئں تو ہم اور رضیہ چھت پر چڑھ کر چاند بھی تلاش کیا کرتے تھے. امی کبھی کام کے دباؤ کے تحت دعا کرتی کہ عید تیس کی ہو تو اللہ معاف کرے اس وقت امی اس قدر ظالم لگتی تھیں کہ حد نہیں اور دل چھن سے ٹوٹ جاتا تھا.
عید کے جوڑے اور چپل کو دن میں بہتر بار دیکھنے کے باوجود بھی دل نہیں بھرتا تھا. امی سے مہندی لگوانے کے انتظار میں امی کی نماز کی چوکی پر ہی آنکھ لگ جاتی تھی اور جب عید کی صبح آنکھیں کھلتی تو اپنے بستر پر ہوتے اور سلیقے سے ہاتھوں پر مہندی بھی لگی ہوتی اور اس پر کاغذ کا ٹھونگا ( تھیلی) بھی چڑھا ہوتا. عید کا جوڑا پریس کیا ہوا ہینگر میں لٹکا ہوتا اور ساتھ ہی چپل چوڑیاں اور پن اور پرس، ہر چیز تیار ہوتی. پتہ نہیں چاند رات کو امی سوتی بھی تھیں کہ نہیں؟
صبح پورا گھر سجا بنا نیا نکور نکھرا نکھرا ملتا۔ ڈائینگ ٹیبل اشتہا انگیز کھاجے سے لبریز ہوتی اور امی کے چہرے پر تھکن کی ایک بھی شکن نہ ہوتی ، مستعد اور مسکراتی ہوئی میری پیاری امی، جانے کون سا جن تھا ان کے قبضے میں.
پاپا کی عید گاہ سے وآپسی سے قبل ہم بہنیں بھی تیار ہو جاتی اور پھر پاپا کو سلام کر کے عیدی وصول کی جاتی. اس عیدی کا بیشتر حصہ نور جہاں روڈ پر واقع سن شائن نامی دکان کے مالک کی
گلک میں جاتا کہ ان کی دکان سے دس پیسے کے سکے جیسی شکل والی ناریل کی ٹافی میری پسندیدہ تھی اور کچھ حصہ گلی کے آخری مکان میں واقع بےبی آئس کریم کی دکان کے نظر ہوتا اور بقیہ ماندہ عیدی بہت سنبھال کر تمباکو کے خوب صورت زرد ڈبے میں سینت کر رکھی جاتی تا کہ نور جہاں روڈ کی اکلوتی لائبریری سے “سلیم پر کیا بیتی” اور “محمود کی آپ بیتی” جیسی تحیر خیر ناولوں اور جمی کی آئس لالی پر خرچا جا سکے. محلے میں چرخے والا جھولا بھی چاند رات ہی سے آ کر بڑے میدان میں استادہ ہو جاتا اور عید کے دن صبح ہی سے اس میدان میں مختلف خوانچے والے، بندر والا، سپیرا اور بھالو والا بھی آتے. بندر والا کھڑکی توڑ رش لیتا، خاص کر اس کا وہ ایکٹ جس میں بندر، بندریا سے روٹھ کر تین پہئے والی سائکل پر بیٹھ کر جانے لگتا ہے اور بندریا سرخی لگائے، گھونگٹ کاڑھے ناراض سجن کو منانے کے جتن میں ہلکان ہوئی جاتی تھی، مگر میرا دل اس بندر کے تماشے سے خوش ہونے کے بجائے بندروں کی آنکھوں کی بےبسی پر کڑھتا اور بھالو کے ناک میں پڑا لوہے کا چھلا ہمیں اپنی گردن کا طوق لگتا .
ہر عید پر امی اور پاپا کا مقابلہ ہوتا کہ کون زیادہ اچھا لگ رہا ہے؟ اور عید پر پاپا اپنی ہر سال کی پہنی ہوئی کالی شیروانی پہن کر حسب دستور ڈیشنگ لگ رہے ہوتے اور ہم تینوں بہنیں اپنی بےایمانی کی راویت کو برقرار رکھتے ہوئے امی کو ووٹ دیتیں. پاپا خوشدلی سے ہنستے ہوئے شیر خورمہ کھاتے اور ایسے ہی ہنسی مذاق میں ناشتا تمام ہوتا. ناشتے کے بعد ہم بچوں کا گینگ محلے پڑوس میں سب بزرگوں کو ہوائی سلام جھاڑتا اور دعائیں پلس عیدی بٹورتا ہوا میلے ٹھیلے میں موج مستی کرتے ہو دوپہر بتا دیتا۔ کیسی سہانی، ہنستی کھلکھلاتی عیدیں ہوا کرتی تھیں بچپن کی.
یہاں مغربی پاکستان کی عیدیں اتنی دل افروز نہیں تھیں جتنی کہ شہر جمال (ڈھاکہ) کی مگر سقوط مشرقی پاکستان کے باوجود ہم پانچوں زندہ تھے اور اکٹھے تھے اس سے بڑا احسان اللہ تعالیٰ کا اور کیا ہو گا، پر شاید دل کا ایک کونہ بجھ گیا تھا .
نوجوانی میں چاند رات ہمیں بہت ہی فسوں کار لگتی اور ہم چاند رات بہت اہتمام سے منایا کرتے تھے، پر جانے کیوں عید کا دن اداس کر دیتا تھا؟
شاید اس لیے کہ عید کے دن ہر چیز اس قدر مکمل اور بھرپور ہوتی تھی کہ پھر سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اب اور کیا؟
غالباً اسی لیے ممتاز مفتی نے کہا ہے کہ ساری خوشی طلب میں ہے.
اس اداسی کو دور کرنے کا ہم نے بہت آسان اور تیر بہ ہدف نسخہ ڈھونڈ نکالا کہ عید سے پہلے عید کے دن پڑھنے کے لیے ایک کتاب خرید لاتے، پر میرے خدا!! عید سے پہلے اس کتاب کو پڑھنے کی خواہش پر بند باندھنا بھی ایک الگ ہی جبر کی کہانی ہوتی تھی. اس علاج یعنی کتاب کا ایک بہت ہی برا سائیڈ ایفکٹ بھی تھا اور وہ یہ کہ پھر مہمانوں کی خاطر داری کے لیے ہمیں اٹھنا زہر لگتا اور نتیجتاً مہمانوں کے جانے کے بعد امی کی جانب سے لازماً ایک تگڑی قسم کی ڈانٹ میری منتظر ہوتی. وہ تو اللہ بھلا کرے آپا اور زرین کا وہ دونوں ہمیشہ میرے بچاؤ کے لیے آتیں. جب تک ان دونوں کی شادی نہیں ہو ئی تھی میرے بڑے عیش تھے، میری دونوں بہنیں میرے بڑے لاڈ اٹھاتی تھیں . اصل عید کا مزہ بھی اسی وقت تک تھا جب تک ہم تینوں بہنیں ساتھ تھیں، پھر بہنوں کی شادیاں ہوتی گئی اور گھر سونا اور عید پھیکی ہوتی گئی.
عید کا اعلان ان دنوں سائرن بجا کر کیا جاتا تھا پھر گلی کے منچلے ٹولیوں کی شکل میں پٹاخے پھوڑتے چلتے اور ایک گہماگہمی اور رونق جاگ اٹھتی. بازار کے رش میں بےپناہ اضافہ ہو جاتا اور سب سے زیادہ جو دکان رش لیتی وہ دودھ فروش کی ہوتی. جن کے کپڑے درزی نے ابھی تک سی کر نہیں دیے ہوتے وہ اس کی چوکھٹ پکڑ لیتے اور کبھی کبھار نوبت مغلظات تک بھی آ جاتی. چاند رات کو سب سے معتبر شخصیت گیسو تراش کی ہوتی کہ بڑے بڑے طرم خان بھی اس پل اس کے آگے با ادب سر خمیدہ ہوتے.
افطار کے بعد جیسے ہی شیطان آزاد ہوتا میرا مہینے سے بند پڑا ریڈیو بھی رواں ہو جاتا. گھر کی دھلائی، صفائی اور چادروں اور کشن کوروں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اونچے سروں میں
“مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا”
آل انڈیا ریڈیو کی رات دس بجے کی سروس زور شور سے عید کی نسبت سے گانے نشر کرتی اور یہ سلسلہ تقریباً بارہ بجے رات تک ہاتھوں میں مہندی لگانے کے ساتھ اختتام
پزیر ہوتا۔ عید ہو اور بلی کا نیا پٹہ نہ بنے ایسا کیسے ہو سکتا تھا. اپنے عید کے جوڑے کے بچے ہوئے ٹکڑے سے بصد اہتمام بلی کا پٹہ بناتے اور اس پر گوٹا یا ستارے لازمی ٹانکتے. عصر کے بعد ہی بلی کو نہلا دھلا دیتے اور رات میں مہندی لگانے سے پہلے بلی کو نیا پٹہ پہنایا جاتا اور اس کے حسن پر واری صدقے ہوا جاتا.
کیسا معصومیت بھرا بے ریا زمانہ تھا. خوشی دسترس میں تھی اور بغیر کوشش کے دل سے خوش ہوتے تھے.
سب کو عید کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں۔
از قلم
شاہین کمال
کیلگری
رپورٹ: فرح کامران
تصاویر: رفعت حسین
امریکہ کی تیزی سے دوڑتی ہوئی زندگی میں اگر کبھی کوئی اپنی زبان بولنے والا مل جائے تو قدم خود بخود رک جاتے ہیں۔ اپنی زبان میں گفتگو کی چند ساعتیں پورے دن کی تھکن کو دور کر دیتی ہیں۔ اعلی تعلیم، بہتر روزگار اور پر آسائش زندگی کے خواب لئے پر دیس میں قدم رکھنے کے چند روز بعد ہی اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ سب ویسا حسین نہیں، جیسا افق کے اس پار سے دکھائی دیتا ہے- اپنے خواب پا لینے کی دھن میں انسان سے اپنا آپ دور ہو جاتا ہے۔ اگر آپ قسمت کے دھنی ہوں اور آپ کو اپنی منزل بھی جائے تب بھی سب کچھ پا لینے کے باوجود ایک خلش رہتی ہے جو آپ کو بے چین رکھتی ہے، اور یہ خلش ہے اپنی تہذیب، اپنی ثقافت اور اپنی زبان ے دوری۔
اپنے اندر سلگتی ہوئی نا آسودگی کی چبھن کو کم کرنے کے لئے لازم ہے کہ اپنی زندگی سے مصروفیت کا غلاف اتار کر کچھ لمحے اپنی ذات سے لپٹی ماضی کی پرچھائیوں میں گم ہو جائیں۔ ایسی محفلوں میں جائیں جہاں اپنی زبان میں ،اپنی تہہذیب اور ثقافت میں رچے بسے ماحول میں اپنے لوگوں سے گفتگو کریں۔ بہت داد و تحسین کے لائق ہوتے ہیں وہ لوگ جو دیار غیر میں اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں سے وقت نکال کر ایسی محفلوں کا اہتمام کرتے ہیں جن میں شرکت کر کے اپنے وطن کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور روح تک سیراب ہو جاتی ہے۔
ایسے ہی لوگوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر عبد اللہ کا بھی ہے، جو برسوں قبل یہاں اعلی تعلیم کی غرض سے آئے تھے، لیکن جلد ہی اس بات کا اندازہ کر لیا کہ زندگی گزارنے کے لئے اپنی شناخت اور تہذیب کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اسی ضرورت کے لئے انھوں نے علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن کے ْقیام کی تجویز پیش کی اور اس کے زیر اہتمام شعر و سخن کا چراغ روشن کیا۔ چراغ کی فطرت ہے، جلنا، ٹمٹانا اور بجھ جانا۔۔۔۔۔ لیکن اس کی لو کو برسوں تک تھامے رکھنا اور پھر چراغ سے چراغ جلاتے رہنے کے لئے صرف جزبہ ہی نہیں جنون بھی چاہئے اور یہ دونوں ڈاکٹر عبد اللہ میں موجود ہیں۔ بقول احمد فراز
اگرچہ زور ہواوں نے ڈال رکھا ہے
مگر چراغ نے لو کو سنبھال رکھا ہے
ڈاکٹر عبد اللہ نے پچاس سال تک اردو زبان کے چراغ کی لو کو سنبھال رکھا ہوا ہے اور ان کی یہ کاوش اس بات کی متقاضی تھی کی ان کی پزیرائی کی جائے۔ جس طرح ایک شاعر دوسرے شاعر کو پیش ہونے والی مشکلات کا اندازہ لگا سکتا ہے اسی طرح اس بات کا اندازہ بھی ایک منتظم ہی لگا سکتا ہے کہ مشاعرے کی محفلیں سجانے والے کو کیا مشکلات ہو سکتی ہیں۔ طاہرہ حسین نے جو خود بھی 20 سال سے زائد سے نیویارک میں کامیاب مشاعر کروا رہی ہیں، اس پذیرائی کا اہتمام کرتے ہوئے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی اورڈاکٹر عبداللہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے 7 مارچ 2020 کو”جشن عبداللہ ” کی تقریب کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کی صدارت سینئر شاعر اور سماجی رکن پروفیسر یونس شرر تھے، مہمان خصوصی ڈاکٹر عبداللہ، مہمان اعزازی اشفاق حسین تھے اور نظامت کے فرائض راقم الحروف نے ادا کئے
تقریب کا آغاز خوش نصیب نے تلاوت قران پاک سے کیا۔ خوش نصیب کی عمرصرف دس سال اور اج کل نیویارک میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا رہے ہیں۔ طاہرہ حسین نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے ڈاکٹر عبد اللہ کا تعارف کروایا اور ان کی دیرینہ خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس کے بعد فرح کامران نے نظامت کے فرائض سنبھالے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز مختلف ویڈیوکلپ پر مبنی پر ڈاکٹرعبداللہ کی زندگی کے حوالے سے ایک ڈاکومنٹری فلم سے کیا گیا جس کو بہت ہی محنت اور لگن سے ان کے دوست افضال عثمانی نے تیار کیا تھا۔ یہ ڈاکومنٹری اصل میں تصویروں کی زبانی ڈاکٹرعبداللہ کی علی گڑھ ایسوسی ایشن کے قیام اور اس کے زیر اہتمام ہونے والے مشاعروں کے حوالے اس ان کی جد و جہد کی کہانی تھی۔ اس ڈاکومنٹری نے شروع سے لے کر آخر تک سامعین کو متوجہ رکھا۔
اس کے بعد مقرین نے اظہار خیال کیا۔ سب سے پہلے علی گڑھ المنائی نیویارک کے صدر تنویر احمد نے تنظیم کے لئے ڈاکٹر عبد اللہ کی گراں قدر خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ ڈاکٹر صبیحہ صبا جو پچھلے 35 سال سے ہر سال ان کے سالانہ مشاعرے میں شرکت کر رہی ہیں، ڈاکٹر عبد اللہ اور ان کے منعقد کردہ مشاعروں کے حوالے سے بہت دلچسب واقعات بیان کئےاور اس حوالے سے خوبصورت اشعار بھی سنائے۔ اشفاق حسین بھی ڈاکٹر عبد اللہ کے دیرینہ ساتھیوں میں سے ہیں جو بہت محبت سے خاص طور سے کینیڈا سے اس پروگرام کے لئے تشریف لائے۔ انھوں نے مشاعروں کے سلسلے میں پیش ہونے والی مشکلات کا ذکر کیا اور کہا کہ ان مشکلات میں ڈاکٹر عبد اللہ کی بے لوث اور مسلسل خدمات اس جشن کی مستحق تھیں جس کا اہتمام طاہرہ حسین نے کیا ہے۔ ان کے علاوہ پروین شیرنے بھی حساب دوستاں چکاتے ہوئے ڈاکٹر عبدللہ کویادوں کا گلدستہ پیش کیا اور جشن کے انعقاد پر مبارک پیش کی۔۔ ڈاکٹر شفیق نے اپنی یاداشتوں پر مبنی مضمون پڑھا جبکہ مشیر طالب اور قانع ادا نے نظمیہ خراج تحسین پیش کیا۔ صاحب صدر پرفیسر یونس شرر نے ڈاکٹر عبداللہ کی فن و شخصیت پر بڑی تفصیل سے گفتگو کی اور ان کی شاعری پر ایک جامع مضمون پڑھا۔ اس موقع پر طاہرہ حسین، اہالیان نیویارک اور مشاعرہ کمیٹی کی طرف سے ڈاکٹر عبد اللہ کو ان کی خدمات کے اعتراف میں ایک شیلڈ پیش کی گئی۔
اوراب باری تھی ڈاکٹرعبد اللہ کی، جن کے اعزاز میں یہ محفل سجائی گئی تھی۔ اس موقع پر ان کی جزباتی کیفیت ان کے لہجے میں سنائی اور چہرے پہ دکھائی دے رہی تھی۔ انھوں نے طاہرہ حسین اور تمام شرکاء کا دلی شکریہ ادا کیا اور ایسوسی ایشن اور مشاعروں کے انعقاد کے سلسلے میں اپنے طویل سفرکی کہانی بہت ہی مختصر پیرائے میں دلچسب انداز میں سنائی۔ انھوں نے علی گڑھ المنائی ایسوسی ایشن اور ان کے ارکان کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ان کے بغیر یہ سفر ممکن نہ تھا۔ اس موقع پر سامعین نے ان سے کچھ سوالات بھی کئے۔ ڈاکٹر عبد اللہ اپنی تمام انتظامی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ایک ابہت اچھے صاحب دیوان شاعر بھی ہیں اس لئے ان کی شاعری کے بغیر محفل کا اختتام نہ ممکن تھا۔ انھوں نے اپنی خوبصورت نظموں سے سامعین کو لطف اندوز کیا اور تقریب کے رنگ کو شاعرانہ کر دیا۔
اس تقریب میں نیویارک کے مختلف مکتب فکر کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ اس پروگرام کی ایک خاص بات یہ تھی کہ ڈاکٹر عبد اللہ کے بہت سے دوست میری لینڈ، واشنگٹن اور ورجینیا سے شرکت کے لئے آئے۔ وہ سب منفرد لگ رہے تھے کیوں کہ سب کے سب کالی شیروانی زیب تن کئے ہوئے تھے۔ تو اس تقریب کے دولہا اگر ڈاکٹر عبد اللہ تھے تو ان کے دوستوں نے براتی ہونے کا پورا پرا حق ادا کیا۔
نیویارک کے جگمگاتی شہر میں ایک جگمگاتی اور یادگار شام ڈاکٹر عبد اللہ کی خوبصورت شاعری کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔
دوستانہ فریب کی قبریں
دور تک اس نگر میں پھیلی ہیں
ایسی ہی زیر خاک بستی میں
زندہ درگور ہو گیا ہوں میں
(ڈاکٹر عبد اللہ)
So what is ‘Inspire Your Heart With Art Day’? Of the broad spectrum of art created in the world, the pieces that move us to tears or cause us to burst out into joyous laughter remain with us for a lifetime. Whether we are touched by music or see into an artist’s soul through their work, art has the power to change us, to inspire our hearts.
The day encourages us to explore the many genres of art and let it inspire us.
We need art in our lives more then ever, in these unprecedented Covid times. On the observance of ‘Inspire your heart with art’ day on January 31st, Urdu Academy of Maryland is here for you to be in touch with exquisite art and artists which are taking ‘art’ to the next level. Here are the list of artists, who’s unique perspectives touched our very souls and showed that art really has no boundaries.
Arooj Aftab: Arooj Aftab is an upcoming musician who, came under everyone’s radar after she appeared in Barack Obama’s Summer Playlist of 2021. She then, became the first Pakistani woman to be nominated for Garmmy award, for Best New Artist and Best Global Music Performance for her Single ‘Mohabbat’ from her album ‘Vulture Prince‘. Her latest work is seen in ‘Coke Studio Season 14’ with ‘Mehram‘ where she performs with Asfar Hussain.
Dual Harmonie: Based in Washington D.C, Metro area, the band comprises of Zayn Ali and Umair Iqbal, and can be mostly seen and heard in local ‘Cha tea House’ in D.C Metro area. Zayn the vocalist, have a vocal range, which can be matched with many well known talented Pakistani singers, and Umair’s guitar jams are groovy. Both of them combined, creates an immersive experience and one cannot help but groove to their favorite song covers. They can be followed on their Instagram page Dual_harmonie
Rad-iish: If you ever want some custom design printed in your favorite ‘Jordans’, your desi local artist in not too far away. We met Amina in a local D.C restaurant with her vendor table and fell in love with her custom design shoes. Rad-iish can be followed on Instagram for Amina’s latest customized shoes, and can also be ordered on Etsy.
Haider Ali (Truck art of Pakistan): If anyone ever visits Pakistan, one cannot help but notice the most colorful busses and rickshaws on the streets. Unlike anywhere else in the world, these mode of Public transportation can immediately brighten up anyone’s day. Haider Ali, have taken Truck art of Pakistan to a new level and his Instagram and Facebook account are a whimsical glimpse of his creations. His most noted work was a mural that he created of ‘George Floyd’ for ‘Black Lives Matter’ movement.
میں بہت خوش ہوں کہ آج میں ایک ایسے موقع پر آ پ کے ساتھ ہوں جو ہماری قوم کی تاریخ میں آزادی کے سب سے بڑے مظاہرے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
ایک صدی قبل، ایک عظیم امریکی، جس کے پرتوِ رہبری تلے آج ہم کھڑے ہیں، نے اعلانِ آزادی پر دستخط کیے تھے۔ یہ انتہائی اہم فرمان ان لاکھوں نیگرو غلاموں کے لیے امید کی مشعل بن کر آیا جو ناانصافی کے کمھلا دینے والے شعلوں سے نیم جاں ہوچکے تھے۔ وہ مانند ایک خوشگوار صبح کے ان کی اسیری کی لمبی رات کا خاتمہ کرنے کو ظہور ہوا۔ لیکن اس کے سو سال کے بعد بھی، نیگرو آزاد نہیں ہے۔ سو سال ہوگئے لیکن افسوس نیگرو کی زندگی کو نسلی امتیاز کی بیڑیوں اور نسل پرستی کی زنجیروں نے مفلوج کر رکھا ہے۔
ایک سو سال گزر گئے ہیں، نیگرو اب بھی اپنے چاروں طرف پھیلے مادّی آسائشوں کے بیکراں سمندر کے بیچ ایک غربت کے مارے درماندہ جزیرے پر رہ رہا ہے۔ نیگرو امریکی ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی امریکی معاشرے کے کونے کھتروں میں حسرت زدہ زندگی گزار رہا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے ہی دیس میں جلا وطن ہے۔ پس آج ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں کہ ہم ایک شرمناک صورتِحال کا تماشہ بنا کر رکھ دیں۔
ایک طرح سے ہم اپنے دارالحکومت میں ایک چیک بھنانے آئے ہیں۔ جس وقت ہماری عظیم جمہوریہ کے معماروں نے آئین اور قراردادِ آزادی کے شاندار الفاظ کو تحریرکیا ہےوہ اس وقت ایک تمسک پر بھی دستخط کر رہے تھے جس کا ہر امریکی وارث ہونے جا رہا تھا۔ یہ تمسک ایک وعدہ تھا کہ تمام آدمیوں کو، جی ہاں، کالے آدمیوں کو اور گورے آدمیوں کو بھی، کہ ان کو زندہ رہنے، آزادی اور خوشی کی تلاش کے لاینفک حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔
آج یہ بات تشت از بام ہے کہ امریکہ اپنے بادشندگانِ رنگ کے سلسلے میں اپنی اس تمسک پر اب تک غفلت اور نادہندگی کا مرتکب ہے۔ اپنی اس مقدس ذمہ داری کو پورا کرنے کی بجائے امریکہ نے اپنے نیگرو عوام کو ایک ناقص چیک تھمادیا، ایک ایسا چیک جو واپس ملا ’ناکافی رقم‘ کے جواب کے ساتھ۔ لیکن ہم یہ ہرگز یقین کرنے کو تیار نہیں کہ انصاف کا بینک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ہم یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اس قوم کی مواقعوں کی عظیم تجوریوں میں رقوم ناکافی ہیں۔ پس ہم اس چیک کو بھنانے آئے ہیں — ایک چیک جو ہمارے طلب کرنے پر آزادی کی نعمتیں اور انصاف کی ضمانت دے گا۔ ہم اس مقدس مقام پر امریکہ کو یہ بھی یاد دلانے آئے ہیں کہ اب وقت بہت ہی کم ہے۔ یہ وقت گفت و شنید کے مزے لینے کا یا ’رفتہ رفتہ ہو جائے گا‘ کی مسکن دوا لینے کا نہیں ہے۔ یہ وقت ہے جمہوریت کے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کا۔ یہ وقت ہے نسل پرستی کی اندھیری اور اجاڑ وادی سے باہر نکل کر نسلی انصاف کی روشن روش اپنانے کا۔ یہ وقت ہے اپنی قوم کو نسلی نا انصافی کی دلدل سے نکال کر بھائی چارے کی ٹھوس چٹان پر کھڑا کرنے کا۔ یہ وقت ہے انصاف کو خدا کے تمام بندوں کے لیے ایک حقیقت بنادینے کا۔
ہماری قوم کے لیے اس فوری اہمیت کے لمحے کو نظر انداز کرنا موت کو گلے لگانا ہوگا۔ نیگرو لوگوں کی بالکل جائز بے اطمنانی کا کڑی دھوپ کا موسم اس وقت تک دور نہیں ہوگا جب تک آزادی اور برابری کی فصلِ خریف اچھی نہیں ہوگی۔ انیس سو تریسٹھ اختتام نہں شروعات ہے۔ وہ جوامید لگائے بیٹھے ہیں کہ نیگرو زور دکھا کر بیٹھ جائیں گے اور خاموش ہو رہیں گے، اگر حالات یونہی چلتے رہے تو انہیں ایک ایسی بیداری سے واسطہ پڑے گا جو کسی کا لحاظ نہیں کرے گی۔ امریکہ میں اس وقت تک آرام و سکون نہیں ہوگا جب تک نیگرو کو اس کے شہری حقوق نہیں مل جاتے۔ بغاوت کے بگولے اس وقت تک ہماری قوم کی بنیادوں کو جھنجھوڑتے رہیں گے جب تک انصاف کا روشن دن طلوع نہیں ہوجاتا۔
البتہ ایک بات ہے جو میں اپنے لوگوں سے، جو انصاف کے محل کو جانے والی تپتی دہلیز پر کھڑے ہیں، ذور دے کے کہنا چاہتا ہوں ۔ ہم اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے عمل میں غلط کاریوں کے مرتکب ہرگز نہیں ہونگے۔ ہم اپنی آزادی کی تشنگی ہرگز بھی تلخی اور نفرت کے پیالے کو منہ لگا کر نہیں بجھائیں۔
ہم ہمیشہ اپنی جدوجہد وقار اور نظم و ضبط کے ارفع مقام سے چلاتے رہیں گے۔ ہم اپنے اس تخلیقی احتجاج کو ہرگز بھی بگڑ کر جسمانی تشدّد والا نہیں بننے دیں گے۔ ہم بار بار وقار کی عظمتوں کے ساتھ جسمانی طاقت کا روح کی طاقت سے مقابلہ کریں گے۔ یہ انیق جہاد جس نے نیگرو قوم کو آ لیا ہے ہر گز ہمیں تمام گورے لوگوں کو مشکوک نہیں بنانے دے، کہ ہمارے بہت سے گورے بھائی، اور ان کی یہاں موجودگی اس کا ثبوت ہے، اس بات کا شعور پا گئے ہیں کہ ان کی قسمت ہماری قسمت کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ ان کی آزادی ہماری آزادی کے ساتھ لاینفک طور پر نتھی ہے۔ ہم اکیلے نہیں چل سکتے۔
جب ہم آگے بڑھنے لگیں گے، تواس عہد کے ساتھ کہ ہم مستقل آگے ہی بڑھتے جائیں گے۔ ہم پیچھے نہیں مڑ سکتے۔ کچھ لوگ شہری حقوق کے پرستاروں سے پوچھ رہے ہیں، ’تم کب مطمئن ہوگےَ؟‘ہم اس وقت تک ہر گز مطمئن نہیں ہونگے جب تک نیگرو پولیس تشدد کی ناقابل بیان دہشت کا شکار ہے۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک سفر سے تھکے ہارے ہمارے جسموں کو شاہراہوں پر بنی سراؤں اور موٹلوں میں اور شہروں کے ہوٹلوں میں ٹھیرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک نیگرو کی زندگی کا سفر ایک چھوٹی کچی آبادی سے نکل کر کسی بڑی کچی آبادی تک محدود رہے گا۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک وہ تختیاں جن پر لکھا ہوتا ہے ’صرف سفید فام لوگوں کے لیے‘ ہمارے بچّوں کی خودی تار تار کر تی رہیں گی اور ان سے ان کی عزت چھینتی رہیں گی۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک مسیسیپی کا ایک نیگرو ووٹ نہیں دے سکتا اورنیو یارک کا ایک سیاہ فام یقین رکھتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے وہ ووٹ استعمال کرے۔ نہیں، نہیں، ہم مطمئن نہیں ہیں، اور نہ ہم اس وقت تک مطمئن ہونگےجب تک انصاف پانی کی طرح نہیں بہتا اوردیانتداری ایک چڑھے ہوئے دریا کی مانند نہیں ہوجاتی۔
میں اس بات سے ہر گز غافل نہیں ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ بڑی آزمائشوں سے گزر کر اور مصیبتیں اٹھا کر یہاں آئے ہیں۔ کچھ جیل کی تنگ کوٹھریوں سے تازہ چھٹ کر آئے ہیں۔ آپ میں سے کچھ وہ ہیں جو ایسے علاقوں سے آئے ہیں جہاں آپ کی آزادی کی کھوج پر آپ کو ایزارسانی کے طوفانوں نے مار کے رکھدیا اور پولیس تشدد کے تلاطم نے آپ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اب آپ مشقتِ تعمیری کے آزمودہ کار ہیں۔ جاری رکھیے اپنا کام اس یقین کے ساتھ کہ بِنا مانگے کی یہ اذیت دور ہونے والی ہے۔
مسیسیپی کو لوٹ جاؤ، الاباما واپس جاؤ، جنوبی کیرولائنا واپس جاؤ، واپس جاؤجارجیا ، لوٹ جائو لوزیانا کو، ہمارے شمالی شہروں میں اپنی کچی آبادیوں کو اور جھگی پاڑوں کو واپس جاؤ، یہ جانتے ہوئے کہ کسی نہ کسی طرح یہ حالت بدل سکتی ہے اور بدلے گی۔ ہمیں مایوسی کی وادیوں میں دھکے نہیں کھاتے رہنا ہے۔
آج میرے دوستو، میں تم سے کہتا ہوں، اگرچہ ہم آج اور آنے والے کل کی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں، پر میں اب بھی ایک خواب دیکھتا ہوں۔ یہ ایسا خواب ہے جس کی جڑیں امریکی خواب میں بڑی گہری اتری ہوئی ہیں۔
میرا خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم اٹھ کھڑی ہوگی اور اپنے مسلک پر پوری اترے گی: ’ہمارے نزدیک یہ سچائیاں اظہر من الشمس ہیں: کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔‘
میرا خواب ہے کہ ایک دن جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر سابق غلاموں کے بیٹے اور سابق غلاموں کے مالکوں کے بیٹے بھائی چارے کی میز پراکھٹے بیٹھ سکیں گے۔
میرا خواب ہے کہ ایک دن مسیسیپی کی ریاست، وہ ریاست جہاں ناانصافی کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ ریاست جہاں ظلم کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ تک آزادی اور انصاف کے ایک نخلستان میں بدل جائے گی۔
میرا خواب ہے کہ میرے چار بچے جو ابھی چھوٹے ہیں ایک دن ایک ایسے دیس میں ہوں گے جہاں وہ اپنی جلد کی رنگت سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے پہچانے جائیں گے۔
آج یہ میرا خواب ہے۔
میرا خواب ہے کہ ایک دن، الاباما، اپنے تمام خبیث نسل پرستوں کے ساتھ، اپنے گورنر کے ساتھ جس کے لبوں سے ہر وقت دخل اندازی اور تنسیخ کے الفاظ ٹپکتے رہتے ہیں۔ ایک دن بالکل اسی الاباما میں، چھوٹے چھوٹے کالے لڑکے اور کالی لڑکیاں اور چھوٹے چھوٹے سفید لڑکے اور سفید لڑکیاں ایک دوسرے کا ہاتھ بہنوں اور بھائیوں کی طرح تھام سکیں گے۔
آج یہ میرا خواب ہے۔
میرا یہ خواب ہے ہر وادی سرفراز ہوگی، ہر پہاڑ اور ہر کوہ جھکا دیا جائے گا، تمام ناہموار جگہیں ہموار کر دی جائیں گی، اور کج جگہیں سیدھی کر دی جائیں گی، اور خدا کی شوکت ظاہر ہوگی، اور تمام ذی روح اسے ضرور اکھٹے دیکھیں گے۔
یہی ہماری امید ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کے ساتھ میں واپس جنوب پہنچوں گا۔ اسی یقین کے ساتھ کہ ہم ناامیدی کے پہاڑ کو چورا چور کر کے سنگِ امید حاصل کر سکیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ ہم نااتفاقی کے شور کو ایک خوبصورت بھائی چارگی اور ہم آہنگی میں بدل دیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ ہم اکھٹے ہو کر کام کرسکیں گے، ایک ساتھ عبادت کر سکیں گے، ایک ساتھ جدو جہد کر سکیں گے، ایک ساتھ جیل جا سکیں گے، آزادی کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہو سکیں گے، یہ جانتے ہوئے کہ ہم ایک دن آزاد ہوں گے۔
یہ وہ دن ہوگا جب خدا کے تمام بندے ایک نئے معنی کے ساتھ گا سکیں گے، ’اے میرے وطن، یہ تُو ہے، آزادی والی پیاری زمین، میں تیرے ہی لیے نغمہ سرا ہوں۔ زمین جہاں میرے پُرکھوں نے موت کو گلے لگایا، زائرین کا فخر زمین، تمام پہاڑی ڈھلوانوں سے گونجنے دو آزادی کو ۔‘
اور اگر امریکہ کو ایک عظیم قوم بننا ہے تو اس سچ کو ضرور پورا ہونا چاہیے۔ گونجنے دو آزادی کونیو ہمپشائر کی شاندار پہاڑی
چوٹیوں سے۔ گونجنے دو آزادی کو نیویارک کے زبردست پہاڑوں سے۔ گونجنے دوآزادی کو پنسلوینیا میں الگھنیز کی بلندیوں سے!
گونجنے دوآزادی کو کولوراڈو کے راکیز سے!
گونجنے دوآزادی کوکیلیفونیا کی مدور ڈھلوانوں سے!
صرف یہی نہیں؛ گونجنے دو آزادی کو جارجیا کے جبلِ اسٹون سے!
گونجنے دوآزادی کو ٹینیسی کے جبلِ لُک آوٹ سے!
گونجنے دوآزادی کو مسیسیپی کی ہر چھوٹی بڑی پہاڑی سے۔ ہر پہاڑی ڈھلوان سے، گونجنے دو آزادی کو!
اور جب ایسا ہوجائے گا، جب ہم آزادی کو گونجنے دیں گے، جب ہم اسے ہرگاؤں ہر گوٹھ سے گونجنے دیں گے، ہر ریاست اور ہر شہرسے تو ہم اُس دن کو پَر لگادیں گے جس دن خدا کے تمام بندے، کالے آدمی اور گورے آدمی، یہودی اور غیرمذہب، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک، سب ہاتھ میں ہاتھ ڈال سکیں گے اورگا سکیں گے قدیم نیگرو مقدس گیت، ’بلآخر آزاد ہیں ہم، بلآخر آزاد ہیں ہم! لاکھ شکراے ذوالجلال، بالآخر آزاد ہیں ہم۔
test Post to try out the newsletter category.
Salaam
The Urdu Cultural Mela which took place on May 20th, 2017 at Seneca Valley High School received a very good review.
Please check it out at this link: http://twocircles.net/2017jul01/412281.html
سرسید کی یاد میں
رضا علی
بالٹی مور ۲۰۱۷/۱۰/۰۸
برصغیر کی تاریخ میں، جو عہد ساز ہستیاں گزری ہیں، ان میں بہت نمایاں اور اہم نام سید احمد خان کا ہے۔ ۔جنھوں نے اپنی بصیرت اورتخیل سے بظاہر ایک ناممکن کام کو ممکن بنا دیا۔ میرا اشارہ عہد ساز شخصیت، سرسید احمد خان کی طرف ہے۔ جن کے وجدان اور دور نگاہی نے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نیٔ روح پھونک دی،اور ایک ایسا چراغ روشن کیا،جس کی لو نے، نہ صرف اس وقت، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ، مشعل راہ کا کام کیا۔
سرسید پران کے زمانے میں اور بعد کو، بھی تنقید ہویٔ۔ لیکن وہ اپنی مضبوط قوت ارادی سے اپنی منزل کی طرف گامزن رہے۔
؎ بقول میر تقی میر، مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں،تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں۔
اسی طرح؎ اقبال نے بھی کہا تھا، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا۔
سرسید کی تحریک کا محورتھا،تعلیم۔ خصوصی طور پر مغربی تعلیم، جس کے حصول کے لیے انگریزی زبان کا جاننا بے حد ضروری تھا۔یہ اس لیے کہ، انہوں نے علی گڑھ اسکول اور یونیورسٹی کی جب بنیاد رکھی تو،اس میں انگریزی تعلیم لازمی قرار پایٔ۔۔جو کہ اس وقت کی ضرورت تھی،اور یہ بعد کے حالات و واقعات نے ثابت بھی کیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔
ان کے اس فیصلے پر لوگوں نے بہت تنقید کی اور شروع میں اپنے بچوں کو علی گڑھ اسکول میں نہیں بھیجا۔ لیکن بعد میں آہستہ آہستہ لوگوں نےاس طرزتعلیم کو قبول کرلیا۔
سرسید نے ۱۸۷۵ میں اسکول کی بنیاد مدرسہتاالعلم کے نام سے رکھی۔بعدازاں ۱۸۷۷میں اینگلو اورینٹل کالج کا سنگ بنیاد رکھا،اور پتھر پہ سرسید نے تین بار ضرب لگا کر کہا، میں اعلان کرتا ہوں کہ یہ پتھردرست اور موزوں مقام پہ نصب ہو گیا ہے۔ میرے خیال میں سرسید کے اس اعلان کی وجہ یہ تھی، کہ وہ دنیا کو یہ باورکرانا چاہ رہے تھے،کہ تعلیم کتنی ضروری ہے، اور اس کی اہمیت کیا ہے۔
سرسید نےجوبیج بویا اورجس پودے کی آبیاری کی تھی،۱۹۲۰ میں وہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔اینگلو اورینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا۔ جس کا نام علی گڑھ مسلم یونیورسٹی رکھا گیا۔
سرسید کا تخیل مذہب و ملت کےامتیاز کےبغیرنوجوان نسل کی بہترتعلیم و تربیت تھا۔علی گڑھ کے فارغ التحصیل طلبأ نے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ ۔جن میں بہت نامی گرامی لوگ شامل ہیں،جیسے،لیاقت علی خان، مولانا محمد علی جوہر،مولانا شوکت علی،حسرت موہانی،الطاف حسین حالی، بابأے اردوعبدالحق، پطرس بخاری،زیڈ اے بخاری، شبلی نعمانی، عصمت چغتأی ،جاوید اختر،اسرار الحق مجاز،شکیل بدایونی،فانی بدایونی،حضرت جوش ملیح آبادی،سجاد حیدر یلدرم،سعادت حسن منٹو،جناب اختر انصاری دہلوی وغیرہ ایک لمبی تعداد ہے، ان مشاہیر کی۔
بقول ؎ شاد عظیم آابادی، ڈھونڈوگے ہمیں برسوں برسوں،
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم، تعبیر ہے جس کی حسرت و غم،
اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم۔
رضی اختر شوق؎
ہم روحِ سفرہیں ہمیں ناموں سے مت پہچان ،
کل اور کسی نام سے آجاییں گے ہم لوگ