Posts

جو بسر گئی ہیں باتیں

.عیدیں تو بچپن اور کم عمری کی ہی ہوا کرتی تھیں

ہمیں یاد ہے بچپن میں ہم ہمیشہ اس معجزے کے منتظر رہتے تھے کہ چاند 27 یا 28 کو ہی نظر آ جائے بلکہ اپنے تیئں تو ہم اور رضیہ چھت پر چڑھ کر چاند بھی تلاش کیا کرتے تھے. امی کبھی کام کے دباؤ کے تحت دعا کرتی کہ عید تیس کی ہو تو اللہ معاف کرے اس وقت امی اس قدر ظالم لگتی تھیں کہ حد نہیں اور دل چھن سے ٹوٹ جاتا تھا.
عید کے جوڑے اور چپل کو دن میں بہتر بار دیکھنے کے باوجود بھی دل نہیں بھرتا تھا. امی سے مہندی لگوانے کے انتظار میں امی کی نماز کی چوکی پر ہی آنکھ لگ جاتی تھی اور جب عید کی صبح آنکھیں کھلتی تو اپنے بستر پر ہوتے اور سلیقے سے ہاتھوں پر مہندی بھی لگی ہوتی اور اس پر کاغذ کا ٹھونگا ( تھیلی) بھی چڑھا ہوتا. عید کا جوڑا پریس کیا ہوا ہینگر میں لٹکا ہوتا اور ساتھ ہی چپل چوڑیاں اور پن اور پرس، ہر چیز تیار ہوتی. پتہ نہیں چاند رات کو امی سوتی بھی تھیں کہ نہیں؟
صبح پورا گھر سجا بنا نیا نکور نکھرا نکھرا ملتا۔ ڈائینگ ٹیبل اشتہا انگیز کھاجے سے لبریز ہوتی اور امی کے چہرے پر تھکن کی ایک بھی شکن نہ ہوتی ، مستعد اور مسکراتی ہوئی میری پیاری امی، جانے کون سا جن تھا ان کے قبضے میں.

پاپا کی عید گاہ سے وآپسی سے قبل ہم بہنیں بھی تیار ہو جاتی اور پھر پاپا کو سلام کر کے عیدی وصول کی جاتی. اس عیدی کا بیشتر حصہ نور جہاں روڈ پر واقع سن شائن نامی دکان کے مالک کی

گلک میں جاتا کہ ان کی دکان سے دس پیسے کے سکے جیسی شکل والی ناریل کی ٹافی میری پسندیدہ تھی اور کچھ حصہ گلی کے آخری مکان میں واقع بےبی آئس کریم کی دکان کے نظر ہوتا اور بقیہ ماندہ عیدی بہت سنبھال کر تمباکو کے خوب صورت زرد ڈبے میں سینت کر رکھی جاتی تا کہ نور جہاں روڈ کی اکلوتی لائبریری سے “سلیم پر کیا بیتی” اور “محمود کی آپ بیتی” جیسی تحیر خیر ناولوں اور جمی کی آئس لالی پر خرچا جا سکے. محلے میں چرخے والا جھولا بھی چاند رات ہی سے آ کر بڑے میدان میں استادہ ہو جاتا اور عید کے دن صبح ہی سے اس میدان میں مختلف خوانچے والے، بندر والا، سپیرا اور بھالو والا بھی آتے. بندر والا کھڑکی توڑ رش لیتا، خاص کر اس کا وہ ایکٹ جس میں بندر، بندریا سے روٹھ کر تین پہئے والی سائکل پر بیٹھ کر جانے لگتا ہے اور بندریا سرخی لگائے، گھونگٹ کاڑھے ناراض سجن کو منانے کے جتن میں ہلکان ہوئی جاتی تھی، مگر میرا دل اس بندر کے تماشے سے خوش ہونے کے بجائے بندروں کی آنکھوں کی بےبسی پر کڑھتا اور بھالو کے ناک میں پڑا لوہے کا چھلا ہمیں اپنی گردن کا طوق لگتا .

ہر عید پر امی اور پاپا کا مقابلہ ہوتا کہ کون زیادہ اچھا لگ رہا ہے؟ اور عید پر پاپا اپنی ہر سال کی پہنی ہوئی کالی شیروانی پہن کر حسب دستور ڈیشنگ لگ رہے ہوتے اور ہم تینوں بہنیں اپنی بےایمانی کی راویت کو برقرار رکھتے ہوئے امی کو ووٹ دیتیں. پاپا خوشدلی سے ہنستے ہوئے شیر خورمہ کھاتے اور ایسے ہی ہنسی مذاق میں ناشتا تمام ہوتا. ناشتے کے بعد ہم بچوں کا گینگ محلے پڑوس میں سب بزرگوں کو ہوائی سلام جھاڑتا اور دعائیں پلس عیدی بٹورتا ہوا میلے ٹھیلے میں موج مستی کرتے ہو دوپہر بتا دیتا۔  کیسی سہانی، ہنستی کھلکھلاتی عیدیں ہوا کرتی تھیں بچپن کی.

یہاں مغربی پاکستان کی عیدیں اتنی دل افروز  نہیں تھیں جتنی کہ شہر جمال (ڈھاکہ) کی مگر  سقوط مشرقی پاکستان کے باوجود ہم پانچوں زندہ تھے اور اکٹھے تھے اس سے بڑا احسان اللہ تعالیٰ کا اور کیا ہو گا، پر شاید دل کا ایک کونہ بجھ گیا تھا .

نوجوانی میں چاند رات ہمیں بہت ہی فسوں کار لگتی اور ہم چاند رات بہت اہتمام سے منایا کرتے تھے، پر جانے کیوں عید کا دن اداس کر دیتا تھا؟
شاید اس لیے کہ عید کے دن ہر چیز اس قدر مکمل اور بھرپور ہوتی تھی کہ پھر سمجھ میں  نہیں آتا تھا کہ اب اور کیا؟
غالباً اسی لیے ممتاز مفتی  نے کہا ہے کہ ساری خوشی طلب میں ہے.

اس اداسی کو دور کرنے کا ہم نے بہت آسان اور تیر بہ ہدف نسخہ ڈھونڈ نکالا کہ عید سے پہلے عید کے دن پڑھنے کے لیے ایک کتاب خرید لاتے، پر میرے خدا!! عید سے پہلے اس کتاب کو پڑھنے کی خواہش پر بند باندھنا بھی ایک الگ ہی جبر کی کہانی ہوتی تھی.  اس علاج یعنی کتاب کا ایک بہت ہی برا سائیڈ ایفکٹ بھی تھا اور وہ یہ کہ پھر مہمانوں کی خاطر داری کے لیے ہمیں اٹھنا زہر لگتا اور نتیجتاً مہمانوں کے جانے کے بعد امی کی جانب سے لازماً ایک تگڑی قسم کی ڈانٹ میری منتظر ہوتی. وہ تو اللہ بھلا کرے آپا اور زرین کا وہ دونوں ہمیشہ میرے بچاؤ کے لیے آتیں. جب تک ان دونوں کی شادی نہیں ہو ئی تھی میرے بڑے عیش تھے، میری دونوں بہنیں میرے بڑے لاڈ اٹھاتی تھیں . اصل عید کا مزہ بھی اسی وقت تک تھا جب تک ہم تینوں بہنیں ساتھ تھیں، پھر بہنوں کی شادیاں ہوتی گئی اور گھر سونا اور عید پھیکی ہوتی گئی.

عید کا اعلان ان دنوں سائرن بجا کر کیا جاتا تھا پھر گلی کے منچلے ٹولیوں کی شکل میں پٹاخے پھوڑتے چلتے اور ایک گہماگہمی اور رونق جاگ اٹھتی. بازار کے رش میں بےپناہ اضافہ ہو جاتا اور سب سے زیادہ جو دکان رش لیتی وہ دودھ فروش کی ہوتی. جن کے کپڑے درزی نے ابھی تک سی کر نہیں دیے ہوتے وہ اس کی چوکھٹ پکڑ لیتے اور کبھی کبھار نوبت مغلظات تک بھی آ جاتی. چاند رات کو سب سے معتبر شخصیت گیسو تراش کی ہوتی کہ بڑے بڑے طرم خان بھی اس پل اس کے آگے با ادب سر خمیدہ ہوتے.

افطار کے بعد جیسے ہی شیطان آزاد ہوتا میرا مہینے سے بند پڑا ریڈیو بھی رواں ہو جاتا. گھر کی دھلائی، صفائی اور چادروں اور کشن کوروں کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اونچے سروں میں
“مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا
کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا”
آل انڈیا ریڈیو کی رات دس بجے کی سروس زور شور سے عید کی نسبت سے گانے نشر کرتی اور یہ سلسلہ تقریباً بارہ بجے رات تک ہاتھوں میں مہندی لگانے کے ساتھ اختتام 
پزیر ہوتا۔ عید ہو اور بلی کا نیا پٹہ نہ بنے ایسا کیسے ہو سکتا تھا. اپنے عید کے جوڑے کے بچے ہوئے ٹکڑے سے بصد اہتمام بلی کا پٹہ بناتے اور اس پر گوٹا یا ستارے لازمی ٹانکتے. عصر کے بعد ہی بلی کو نہلا دھلا دیتے اور رات میں مہندی لگانے سے پہلے بلی کو نیا پٹہ پہنایا جاتا اور اس کے حسن پر واری صدقے ہوا جاتا.
کیسا معصومیت بھرا بے ریا زمانہ تھا. خوشی دسترس میں تھی اور بغیر کوشش کے دل سے خوش ہوتے تھے.

سب کو عید کی خوشیاں بہت بہت مبارک ہوں۔

از قلم
شاہین کمال
کیلگری