Inspire Your Heart with Art day!

So what is ‘Inspire Your Heart With Art Day’? Of the broad spectrum of art created in the world, the pieces that move us to tears or cause us to burst out into joyous laughter remain with us for a lifetime. Whether we are touched by music or see into an artist’s soul through their work, art has the power to change us, to inspire our hearts.
The day encourages us to explore the many genres of art and let it inspire us.

We need art in our lives more then ever, in these unprecedented Covid times. On the observance of ‘Inspire your heart with art’ day on January 31st, Urdu Academy of Maryland is here for you to be in touch with exquisite art and artists which are taking ‘art’ to the next level. Here are the list of artists, who’s unique perspectives touched our very souls and showed that art really has no boundaries.

Arooj Aftab: Arooj Aftab is an upcoming musician who, came under everyone’s radar after she appeared in Barack Obama’s Summer Playlist of 2021. She then, became the first Pakistani woman to be nominated for Garmmy award, for Best New Artist and Best Global Music Performance for her Single ‘Mohabbat’ from her album ‘Vulture Prince‘. Her latest work is seen in ‘Coke Studio Season 14’ with Mehram where she performs with Asfar Hussain.

Video: Arooj Aftab’s Live performance for ‘Open Mic’

Dual Harmonie: Based in Washington D.C, Metro area, the band comprises of Zayn Ali and Umair Iqbal, and can be mostly seen and heard in local ‘Cha tea House’ in D.C Metro area. Zayn the vocalist, have a vocal range, which can be matched with many well known talented Pakistani singers, and Umair’s guitar jams are groovy. Both of them combined, creates an immersive experience and one cannot help but groove to their favorite song covers. They can be followed on their Instagram page Dual_harmonie

Video: Dual_Harmonie performing cover of ‘Na Kaho’ by Arroh

Rad-iish: If you ever want some custom design printed in your favorite ‘Jordans’, your desi local artist in not too far away. We met Amina in a local D.C restaurant with her vendor table and fell in love with her custom design shoes. Rad-iish can be followed on Instagram for Amina’s latest customized shoes, and can also be ordered on Etsy.

Custom made ‘Vans’ with traditional ‘Ajrak” pattern by Rad-ish

Haider Ali (Truck art of Pakistan): If anyone ever visits Pakistan, one cannot help but notice the most colorful busses and rickshaws on the streets. Unlike anywhere else in the world, these mode of Public transportation can immediately brighten up anyone’s day. Haider Ali, have taken Truck art of Pakistan to a new level and his Instagram and Facebook account are a whimsical glimpse of his creations. His most noted work was a mural that he created of ‘George Floyd’ for ‘Black Lives Matter’ movement.

Photo by Haider Ali’s Instagram: Haider Ali with his George Floyd Mural.

مارٹن لوتھر کنگ کی تاریخ ساز تقریر

جنوری ١٧،  ١٩٦٣مارٹن لوتھر کنگ  جونیئر نے یاد گارِ ابراہم لنکن کی سیڑھیوں سے   اپنی قوم کو  ایک پیغام دیا

’میرا ایک خواب ہے ‘

ترجمہ : یمین الاسلام زبیری

میں بہت خوش ہوں کہ آج میں ایک ایسے موقع پر آ پ کے ساتھ ہوں جو ہماری قوم کی تاریخ میں آزادی کے سب سے بڑے مظاہرے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

ایک صدی قبل، ایک عظیم امریکی، جس کے پرتوِ رہبری تلے آج ہم کھڑے ہیں، نے اعلانِ آزادی پر دستخط  کیے تھے۔ یہ انتہائی اہم فرمان ان لاکھوں نیگرو غلاموں کے لیے امید کی مشعل بن کر آیا جو ناانصافی کے کمھلا دینے والے شعلوں سے نیم جاں ہوچکے تھے۔ وہ مانند ایک خوشگوار صبح کے ان کی اسیری کی لمبی رات کا خاتمہ کرنے کو ظہور ہوا۔ لیکن اس کے سو سال کے بعد بھی، نیگرو آزاد نہیں ہے۔ سو سال ہوگئے لیکن افسوس نیگرو کی زندگی کو نسلی امتیاز کی بیڑیوں اور نسل پرستی کی زنجیروں نے مفلوج کر رکھا ہے۔      

ایک سو سال گزر گئے ہیں، نیگرو اب بھی اپنے چاروں طرف پھیلے مادّی آسائشوں کے بیکراں سمندر کے بیچ ایک غربت کے مارے درماندہ جزیرے پر رہ رہا ہے۔ نیگرو امریکی ایک سو سال گزرنے کے بعد بھی امریکی معاشرے کے کونے کھتروں میں حسرت زدہ زندگی گزار رہا ہے، اور اسے لگتا ہے کہ وہ اپنے ہی دیس میں جلا وطن ہے۔ پس آج ہم یہاں اکھٹے ہوئے ہیں کہ ہم ایک شرمناک صورتِحال کا تماشہ بنا کر رکھ دیں۔

ایک طرح سے ہم اپنے دارالحکومت میں ایک چیک بھنانے آئے ہیں۔ جس وقت ہماری عظیم جمہوریہ کے معماروں نے آئین اور قراردادِ آزادی کے شاندار الفاظ کو تحریرکیا  ہےوہ اس وقت ایک تمسک پر بھی دستخط کر رہے تھے جس کا ہر امریکی وارث ہونے جا رہا تھا۔ یہ تمسک ایک وعدہ تھا کہ تمام آدمیوں کو، جی ہاں، کالے آدمیوں کو اور گورے آدمیوں کو بھی، کہ ان کو زندہ رہنے، آزادی اور خوشی کی تلاش کے لاینفک حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے۔

آج یہ بات تشت از بام ہے کہ امریکہ اپنے بادشندگانِ رنگ کے سلسلے میں اپنی اس تمسک پر اب تک غفلت اور نادہندگی کا مرتکب ہے۔ اپنی اس مقدس ذمہ داری کو پورا کرنے کی بجائے امریکہ نے اپنے نیگرو عوام  کو ایک ناقص چیک تھمادیا، ایک ایسا چیک جو واپس ملا ’ناکافی رقم‘ کے جواب کے ساتھ۔   لیکن ہم یہ ہرگز یقین کرنے کو تیار نہیں کہ انصاف کا بینک دیوالیہ ہو چکا ہے۔ ہم یقین کرنے کو تیار نہیں کہ اس قوم کی مواقعوں کی عظیم تجوریوں میں رقوم ناکافی ہیں۔ پس ہم اس چیک کو بھنانے آئے ہیں — ایک چیک جو ہمارے طلب کرنے  پر آزادی کی نعمتیں اور انصاف کی ضمانت دے گا۔ ہم اس مقدس مقام پر امریکہ کو  یہ بھی یاد دلانے آئے  ہیں کہ  اب وقت  بہت ہی کم ہے۔ یہ وقت گفت و شنید کے مزے لینے کا یا  ’رفتہ رفتہ ہو جائے گا‘ کی مسکن دوا لینے کا نہیں ہے۔ یہ وقت ہے جمہوریت کے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کا۔ یہ وقت ہے نسل پرستی کی اندھیری اور اجاڑ وادی سے باہر نکل کر نسلی انصاف کی روشن روش اپنانے کا۔  یہ وقت ہے اپنی قوم کو نسلی نا انصافی کی دلدل سے نکال کر بھائی چارے کی ٹھوس چٹان پر کھڑا کرنے کا۔ یہ وقت ہے انصاف کو خدا کے تمام بندوں کے لیے ایک حقیقت بنادینے کا۔

ہماری قوم کے لیے اس فوری اہمیت کے لمحے کو نظر انداز کرنا موت کو گلے لگانا ہوگا۔ نیگرو لوگوں کی بالکل جائز بے اطمنانی کا  کڑی دھوپ کا موسم اس وقت تک دور نہیں ہوگا جب تک آزادی اور برابری کی فصلِ خریف اچھی نہیں ہوگی۔  انیس سو تریسٹھ اختتام نہں شروعات ہے۔ وہ جوامید لگائے بیٹھے ہیں کہ نیگرو  زور دکھا کر بیٹھ جائیں گے اور خاموش ہو رہیں گے، اگر حالات یونہی چلتے رہے تو انہیں ایک ایسی بیداری سے واسطہ پڑے گا جو کسی کا لحاظ نہیں کرے گی۔  امریکہ میں اس وقت تک آرام و سکون نہیں ہوگا جب تک نیگرو کو اس کے شہری حقوق نہیں مل جاتے۔ بغاوت کے بگولے اس وقت تک ہماری قوم کی بنیادوں کو جھنجھوڑتے رہیں گے جب تک انصاف کا روشن دن طلوع نہیں ہوجاتا۔

البتہ ایک بات ہے جو میں اپنے لوگوں سے، جو انصاف کے محل کو جانے والی تپتی دہلیز پر کھڑے ہیں، ذور دے کے کہنا چاہتا ہوں ۔ ہم اپنا جائز مقام حاصل کرنے کے عمل میں غلط کاریوں کے مرتکب ہرگز نہیں ہونگے۔  ہم اپنی آزادی کی تشنگی ہرگز بھی تلخی اور نفرت کے پیالے کو منہ لگا کر نہیں بجھائیں۔

ہم ہمیشہ اپنی جدوجہد وقار اور نظم و ضبط کے ارفع مقام سے چلاتے رہیں گے۔ ہم اپنے اس تخلیقی احتجاج کو ہرگز بھی بگڑ کر جسمانی تشدّد والا نہیں بننے دیں گے۔ ہم بار بار وقار کی عظمتوں کے ساتھ جسمانی طاقت کا روح کی طاقت سے مقابلہ کریں گے۔ یہ انیق جہاد جس نے نیگرو قوم کو آ لیا ہے ہر گز ہمیں تمام گورے لوگوں کو مشکوک نہیں بنانے دے، کہ ہمارے بہت سے گورے بھائی، اور ان کی یہاں موجودگی اس کا ثبوت ہے، اس بات کا شعور پا گئے ہیں کہ ان کی قسمت ہماری قسمت کے ساتھ بندھی ہوئی ہے۔ انہیں احساس ہوگیا ہے کہ ان کی آزادی ہماری آزادی کے ساتھ  لاینفک طور پر نتھی ہے۔ ہم اکیلے نہیں چل سکتے۔   

جب ہم آگے بڑھنے لگیں گے، تواس عہد کے ساتھ کہ ہم مستقل آگے ہی بڑھتے جائیں گے۔ ہم پیچھے نہیں مڑ سکتے۔ کچھ لوگ شہری حقوق کے پرستاروں سے پوچھ رہے ہیں، ’تم کب مطمئن ہوگےَ؟‘ہم اس وقت تک ہر گز مطمئن نہیں ہونگے جب تک نیگرو پولیس تشدد کی ناقابل بیان دہشت کا شکار ہے۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک سفر سے تھکے ہارے ہمارے جسموں کو شاہراہوں پر بنی سراؤں اور موٹلوں میں اور شہروں کے ہوٹلوں میں ٹھیرنے کے لیے جگہ نہیں ملتی۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک نیگرو  کی زندگی کا سفر ایک چھوٹی کچی آبادی سے نکل کر کسی بڑی کچی آبادی تک محدود  رہے گا۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک وہ تختیاں جن پر لکھا ہوتا ہے ’صرف سفید فام لوگوں کے لیے‘ ہمارے بچّوں کی خودی تار تار کر تی رہیں گی اور ان سے ان کی عزت چھینتی رہیں گی۔ ہم اس وقت تک مطمئن نہیں ہونگے جب تک مسیسیپی کا ایک نیگرو ووٹ نہیں دے سکتا اورنیو یارک کا ایک سیاہ فام یقین رکھتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کے لیے وہ ووٹ استعمال کرے۔ نہیں، نہیں، ہم مطمئن نہیں ہیں، اور نہ ہم اس وقت تک مطمئن ہونگےجب تک انصاف پانی کی طرح نہیں بہتا اوردیانتداری ایک چڑھے ہوئے دریا کی مانند نہیں ہوجاتی۔

میں اس بات سے ہر گز غافل نہیں ہوں کہ آپ میں سے کچھ لوگ بڑی آزمائشوں  سے گزر کر اور مصیبتیں اٹھا کر یہاں آئے ہیں۔ کچھ جیل کی تنگ کوٹھریوں سے تازہ چھٹ کر آئے ہیں۔ آپ میں سے کچھ وہ ہیں جو ایسے علاقوں سے آئے ہیں جہاں آپ کی آزادی کی کھوج پر آپ کو ایزارسانی کے طوفانوں نے مار کے رکھدیا اور پولیس تشدد کے تلاطم نے آپ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اب آپ مشقتِ تعمیری کے آزمودہ کار ہیں۔ جاری رکھیے اپنا کام اس یقین کے ساتھ کہ بِنا مانگے کی یہ اذیت دور ہونے والی  ہے۔  

مسیسیپی کو لوٹ جاؤ، الاباما واپس جاؤ، جنوبی کیرولائنا واپس جاؤ، واپس جاؤجارجیا ، لوٹ جائو لوزیانا  کو، ہمارے شمالی شہروں میں اپنی کچی آبادیوں کو اور جھگی پاڑوں کو واپس جاؤ، یہ جانتے ہوئے کہ کسی نہ کسی طرح یہ حالت بدل سکتی ہے اور بدلے گی۔  ہمیں مایوسی کی وادیوں میں دھکے نہیں کھاتے رہنا ہے۔  

آج میرے دوستو، میں تم سے کہتا ہوں، اگرچہ ہم آج اور آنے والے کل کی مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں، پر میں اب بھی ایک خواب دیکھتا ہوں۔ یہ ایسا خواب ہے جس کی جڑیں امریکی خواب میں بڑی گہری اتری ہوئی ہیں۔

میرا خواب ہے کہ ایک دن یہ قوم اٹھ کھڑی ہوگی اور اپنے مسلک پر پوری اترے گی: ’ہمارے نزدیک یہ سچائیاں اظہر من الشمس ہیں: کہ تمام انسان برابر پیدا کیے گئے ہیں۔‘

میرا خواب ہے کہ ایک دن جارجیا کی سرخ پہاڑیوں پر سابق غلاموں کے بیٹے اور سابق غلاموں کے مالکوں کے بیٹے بھائی چارے کی میز پراکھٹے بیٹھ سکیں گے۔

میرا خواب ہے کہ ایک دن مسیسیپی کی ریاست، وہ ریاست جہاں ناانصافی کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ  ریاست جہاں ظلم کی آگ بھڑک رہی ہے، وہ تک آزادی اور انصاف کے ایک نخلستان میں بدل جائے گی۔

میرا خواب ہے کہ میرے چار بچے جو ابھی چھوٹے ہیں ایک دن ایک ایسے دیس میں ہوں گے جہاں وہ اپنی جلد کی رنگت سے نہیں بلکہ اپنے کردار سے پہچانے جائیں گے۔

آج یہ میرا خواب ہے۔

میرا خواب ہے کہ ایک دن، الاباما، اپنے تمام خبیث نسل پرستوں کے ساتھ، اپنے گورنر کے ساتھ جس کے لبوں سے ہر وقت دخل اندازی اور تنسیخ کے الفاظ  ٹپکتے رہتے ہیں۔ ایک دن بالکل اسی الاباما میں، چھوٹے چھوٹے کالے لڑکے اور کالی لڑکیاں اور چھوٹے چھوٹے سفید لڑکے اور سفید لڑکیاں ایک دوسرے کا ہاتھ بہنوں اور بھائیوں کی طرح تھام سکیں گے۔        

آج  یہ میرا   خواب ہے۔

میرا یہ خواب ہے ہر وادی سرفراز ہوگی، ہر پہاڑ اور ہر کوہ  جھکا دیا جائے گا، تمام ناہموار جگہیں ہموار کر دی جائیں گی، اور کج جگہیں سیدھی کر دی جائیں گی، اور خدا کی شوکت ظاہر ہوگی، اور تمام ذی روح اسے ضرور اکھٹے دیکھیں گے۔

یہی ہماری امید ہے۔ یہی وہ  یقین ہے  جس کے ساتھ میں واپس جنوب پہنچوں گا۔ اسی  یقین کے ساتھ  کہ ہم ناامیدی کے پہاڑ کو چورا چور کر کے سنگِ امید حاصل کر سکیں گے۔ اسی  یقین کے ساتھ ہم نااتفاقی کے شور کو ایک خوبصورت بھائی چارگی  اور ہم  آہنگی میں بدل دیں گے۔ اسی یقین کے ساتھ ہم اکھٹے  ہو کر کام کرسکیں گے، ایک ساتھ عبادت کر سکیں گے، ایک ساتھ جدو جہد کر سکیں گے، ایک ساتھ جیل جا سکیں گے، آزادی کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہو سکیں گے، یہ جانتے ہوئے کہ ہم ایک دن آزاد ہوں گے۔

یہ وہ دن ہوگا جب خدا کے تمام بندے ایک نئے معنی کے ساتھ گا سکیں گے، ’اے میرے وطن، یہ تُو ہے، آزادی والی پیاری زمین، میں تیرے ہی لیے نغمہ سرا ہوں۔ زمین جہاں میرے پُرکھوں نے موت کو گلے لگایا، زائرین کا فخر زمین، تمام پہاڑی ڈھلوانوں سے گونجنے دو آزادی کو ۔‘

اور اگر امریکہ کو ایک عظیم قوم بننا ہے تو اس سچ کو ضرور پورا ہونا چاہیے۔ گونجنے دو آزادی کونیو ہمپشائر کی شاندار پہاڑی

چوٹیوں سے۔ گونجنے دو آزادی کو نیویارک کے زبردست پہاڑوں سے۔ گونجنے دوآزادی کو پنسلوینیا میں الگھنیز کی بلندیوں سے!

گونجنے دوآزادی کو کولوراڈو کے راکیز سے!

گونجنے دوآزادی کوکیلیفونیا کی مدور ڈھلوانوں سے!

صرف یہی نہیں؛ گونجنے دو آزادی کو جارجیا کے جبلِ اسٹون سے!

گونجنے دوآزادی کو ٹینیسی کے جبلِ لُک آوٹ سے!

گونجنے دوآزادی کو مسیسیپی کی ہر چھوٹی بڑی پہاڑی سے۔  ہر پہاڑی ڈھلوان سے، گونجنے دو آزادی کو!

اور جب ایسا ہوجائے گا، جب ہم آزادی کو گونجنے دیں گے، جب ہم اسے ہرگاؤں ہر گوٹھ سے گونجنے دیں گے، ہر ریاست اور ہر شہرسے تو ہم اُس دن کو پَر لگادیں گے جس دن خدا کے تمام بندے، کالے آدمی اور گورے آدمی، یہودی اور غیرمذہب، پروٹسٹنٹ اور کیتھولک، سب ہاتھ میں ہاتھ ڈال سکیں گے اورگا سکیں گے قدیم نیگرو مقدس گیت، ’بلآخر آزاد ہیں ہم، بلآخر آزاد ہیں ہم! لاکھ شکراے ذوالجلال، بالآخر آزاد ہیں ہم۔